نوید ظفر کیانی کے تلخ و شیریں کلام کا مرکز

شریکِ مجلسِ حسن و شباب میں ہی تھا

شریکِ مجلسِ حسن و شباب میں ہی تھا
کہ سر پہ تھوپ کے آیا خضاب میں ہی تھا

اڑنگی باز تھا عشّاق کے لئے یہ سماج
اور ایک ہڈی تو زیرِ کباب میں ہی تھا

وہ میسنا کہے جاتا تھا موقع بے موقع
ہر اک بیان کا لبِ لباب میں ہی تھا

وہ جس کے پاؤں کو کچلا تھا پائے اقدس نے
یقین کیجئے عالی جناب میں ہی تھا

تری رقیب نوازی سے یہ کھلا مجھ پر
نقاب جس سے تھا وہ بے حجاب میں ہی تھا

جو وارداتیئے تھے، وہ تو ہو گئے تھے ہوا
وقوعہ سے تو فقط بازیاب میں ہی تھا

جو چاہتی تھی وہ بیگم مجھے کھلاتی تھی
کہ اُس کے حصے میں لکھا ثواب میں ہی تھا

وہ جس کے ظرفِ مسلمانی کو قبول نہیں
اسے ریاضی کہو یا حساب، میں ہی تھا

مرے ہی پائے معطر سے کھلبلی تھی بہت
کہیں پہ کمرے میں رکھی جراب میں ہی تھا

بنائے رکھا ہے فٹبال جلوؤں نے مجھ کو
تمام عمر بدلتا نصاب میں ہی تھا

زمین بوس بھلا شامیانہ کیوں ہوتا
نویدؔ کاٹی تھی جس نے طناب میں ہی تھا

عید

دوستوں کے آنے جانے کے لئے آتی ہے عید

عیدیاں دینے دلانے کے لئے آتی ہے عید

ہو گیا آزاد شیطاں، مشتری ہوشیار باش!

ریسلنگ تم سے کرانے کے لئے آتی ہے عید

عید کا دن، جانئیے، رمضان کا افطار ہے

از سرِ نو گُل کھلانے کے لئے آتی ہے عید

زیست کو حسرت رہی اعمال کی عیدی ملے

کیا سوّیاں ہی کھلانے کے لئے آتی ہے عید

چاند کا قضیہ نہیں ہوتا ہے کوئی سال بھر

اِک نواں ہی چن چڑھانے کے لئے آتی ہے عید

دِل کا کہنا ہے، چلو آئی تو ہے تقدیر سے

عقل کی رُوں رُوں ہے، جانے کے لئے آتی ہے عید

حُسن کی چھل بل سے چُندھیائی ہیں آنکھیں عشق کی

پھر نئے چکر میں لانے کے لئے آتی ہے عید

کون بتلائے کہ کوئی وصل کے چکر میں ہے

وہ سمجھتے ہیں زمانے کے لئے آتی ہے عید

چودھری جی کو سیاست سے فراغت مل گئی

فیملی میں چودھرانے کے لئے آتی ہے عید

سامنے ہو مال تو کیوں صبر کا روزہ رہے

’’مربھُکا ہونے‘‘ کے طعنے کے لئے آتی ہے عید

تاجروں کی نیّتیں قہرِ گرانی بن گئیں

گویا ہم کو آزمانے کے لئے آتی ہے عید

کچھ ترے ٹرانے کی ہوتی ہے تقریبِ سعید

کچھ مرے ظفرائے جانے کے لئے آتی ہے عید

ساون کی جھڑی ہے

بارش ہے کہ راشن ہی لئے سر پہ چڑھی ہے

لگتا ہے کہ افلاک بھی اِک ٹوٹی لڑی ہے

یا جیسے کوئی نار کسی ضد پہ اڑی ہے

ساون کی جھڑی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دندناتے ہوئے پھرتے ہیں، بادل ہیں یا غنڈے

گرجیں تو لگے فلموں کی بڑھکیں کوئی مارے

پڑھنے لگی کلمے، میری بیگم یوں ’’دڑی‘‘ ہے

ساون کی جھڑی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دھم دھم کبھی تڑ تڑ کبھی چھم چھم کی صدائیں

گونجے ہی چلی جاتی ہیں ہر آن فضائیں

بادل کی ڈپٹ ہے، کبھی بجلی کی تڑی ہے

ساون کی جھڑی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پرنالوں کی شورش نے بنا رکھا ہے بہرہ

لگتا ہے کہ باہر کوئی ہنگامہ ہے برپا

اِن کو بھی ادا اپنی دکھانے کی پڑی ہے

ساون کی جھڑی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موسم نے اُڑا دی ہے وضعداروں کی کِلّی

ہر شخص نظر آتا ہے بھیگی ہوئی بِلّی

چھتری بھی ہے منہ زور کہ انساں سے بڑی ہے

ساون کی جھڑی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیچڑ بھرے رستوں سے ’’چول ‘‘جاتے ہیں اکثر

دھرتے ہیں قدم اور پھسل جاتے ہیں اکثر

موقع ہے خجالت کا، قیامت کی گھڑی ہے

ساون کی جھڑی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھڑکی سے لگا تکتا ہوں برسات کا منظر

اور سوچتا ہوں جائوں تو کس طور سے دفتر

کیا باس نے دیوار کی تحریر پڑھی ہے؟

ساون کی جھڑی ہے

کچھ شاعروں نے خون جلایا ہے دیر تک

کچھ شاعروں نے خون جلایا ہے دیر تک
ہر شعر با ر بار سنایا ہے دیر تک

ناخن چبائے دانت سے اس نے بھی وصل میں
ہم نے بھی اپنے سر کو کھجایا ہے دیر تک

چھڑکے گی بزم میں وہ جراثیم کش دوا
گویا رقیبوں کا تو صفایا ہے دیر تک

تیری ادا کے پیچھے ہوئے خوار ہم بہت
تیری وفا نے آگے لگایا ہے دیر تک

اِتنا سا ہی بچا ہوں سو "چہونگا” قبولئیے
مجھ کو غم ِفراق نے کھایا ہے دیر تک

علمائے فیس بک میں چمونے تھے خبط کے
ہر مسئلے پہ سینگ لڑایا ہے دیر تک

بیوی کے واسطے کوئی کٹا ہی کھولتے
کچھ نہ بھی کر کے ہاتھ بٹایا ہے دیر تک

اہلِ ٹھرک کی اشتہاء تو کھولنے لگی
جلوؤں کا حلوہ کس نے پکایا ہے دیر تک

۔۔۔۔ ق ۔۔۔۔

یہ عنفوانِ خنکی کے ایّام، ہائے ! ہائے!!
آیا تو کسمسا کے دکھایا ہے دیر تک

بیٹھا تھا اپنے ہاتھ کو میں تاپ تاپ کے
سو اُس نے اپنا ہاتھ تھمایا ہے دیر تک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بجتا رہا ہے کوئی پھٹے ڈھول کی طرح
گیتوں میں میرا ضبط بہایا ہے دیر تک

وہ بھوتنی چڑیل ہی بن پائی ہے ظفر
میک اپ اگرچہ خوب کرایا ہے دیر تک

نہ مارے پریت، ایسا تو نہیں ہے

نہ مارے پریت، ایسا تو نہیں ہے
یہ سُم امریت ایسا تونہیں ہے

کروں میں پاپ گانے ہضم سب کے
یہ سُر سنگیت ایسا تو نہیں ہے

جو اکسائے گدھے کو رینکنے پر
ہمارا گیت ایسا تو نہیں ہے

دولتی جھاڑتا ہے گاہے گاہے
اگرچہ میت ایسا تو نہیں ہے

اڑنگی بازوں کو دے دوں معافی
خمار جیت ایسا تو نہیں ہے

ہمیں کو باندھ رکھے اور چاہے
ہمیں سے بیت، ایسا تو نہیں ہے

سیاست میں بنے بندے کا پتر
کوئی عفریت ایسا تو نہیں ہے

کتابی چہرہ ہو نظروں کے آگے
دھروں نہ چیت، ایسا تو نہیں ہے

رہوں میں خوارِ سسرائیل کیانی
بنامِ رِیت ایسا تو نہیں ہے