دوستوں کے آنے جانے کے لئے آتی ہے عید

عیدیاں دینے دلانے کے لئے آتی ہے عید

ہو گیا آزاد شیطاں، مشتری ہوشیار باش!

ریسلنگ تم سے کرانے کے لئے آتی ہے عید

عید کا دن، جانئیے، رمضان کا افطار ہے

از سرِ نو گُل کھلانے کے لئے آتی ہے عید

زیست کو حسرت رہی اعمال کی عیدی ملے

کیا سوّیاں ہی کھلانے کے لئے آتی ہے عید

چاند کا قضیہ نہیں ہوتا ہے کوئی سال بھر

اِک نواں ہی چن چڑھانے کے لئے آتی ہے عید

دِل کا کہنا ہے، چلو آئی تو ہے تقدیر سے

عقل کی رُوں رُوں ہے، جانے کے لئے آتی ہے عید

حُسن کی چھل بل سے چُندھیائی ہیں آنکھیں عشق کی

پھر نئے چکر میں لانے کے لئے آتی ہے عید

کون بتلائے کہ کوئی وصل کے چکر میں ہے

وہ سمجھتے ہیں زمانے کے لئے آتی ہے عید

چودھری جی کو سیاست سے فراغت مل گئی

فیملی میں چودھرانے کے لئے آتی ہے عید

سامنے ہو مال تو کیوں صبر کا روزہ رہے

’’مربھُکا ہونے‘‘ کے طعنے کے لئے آتی ہے عید

تاجروں کی نیّتیں قہرِ گرانی بن گئیں

گویا ہم کو آزمانے کے لئے آتی ہے عید

کچھ ترے ٹرانے کی ہوتی ہے تقریبِ سعید

کچھ مرے ظفرائے جانے کے لئے آتی ہے عید