اپنی خوشبو میں بسایا ، میں تو اس قابل نہ تھا
بے جہت ہونے نہ پایا ، میں تو اس قابل نہ تھا
عقل کے رستے میں دوراہوں کے گُنجل تھے بہت
اپنے رستے پر چلایا ، میں تو اس قابل نہ تھا
زندگی کی دُہوپ میں جل جاتے خوابوں کے نگر
مجھ پہ رکھا اپنا سایہ ، میں تو اس قابل نہ تھا
ڈال کر سچائیاں ادراک کی زنبیل میں
آئینہ خانے میں لایا ، میں تو اس قابل نہ تھا
سُرخرُو رہنے کی مجھ کو استطاعت کی عطا
وقت نے جب آزمایا ، میں تو اس قابل نہ تھا
وقت کی پہنائی کا ہرہر مکان و لا مکاں
دل کے کوزے میں سمایا ، میں تو اس قابل نہ تھا
نعمتیں دی ہیں مری اوقات سے بڑھ کر مجھے
شکر ہے تیرا خدایا میں تو اس قابل نہ تھا