ہم کو اتنا بھی نگوں سار نہ سمجھا جائے
اُن کے ٹھینگوں کا پرستار نہ سمجھا جائے

عادتاََ شیریں بیاں ہوں جو خواتین کے ساتھ
عقدِ ثانی کا سزاوار نہ سمجھا جائے

ونڈو شاپنگ بھی تو کرتے ہیں بہت سے بندے
اُس کے تاڑو کو خریدار نہ سمجھا جائے

زاوئے اور بھی نقطوں پہ بنا لیتا ہے
عاشقِ عصر کو پرکار نہ سمجھا جائے

یہ الگ بات کہ ہر جیسے کو تیسا ہوں میں
ایسا ویسا مجھے زینہار نہ سمجھا جائے

یوں تو ملہارتے پھرتے ہیں کنارِ جوہڑ
کسی مینڈک کو گلوکار نہ سمجھا جائے

مجھ کو انسان کہا جائے، دغاباز سہی
کسی کتے سا وفادار نہ سمجھا جائے

اپنی پگڑی کو سمجھتا ہوں میں عزت کا نشاں
کلغئی مرغِ طرحدار نہ سمجھا جائے

جھوٹ بکتا ہوں مگر اہلِ صحافت سا کہاں
یوں مجھے شام کا اخبار نہ سمجھا جائے

یہ غمِ قوم نہیں قوم کو کھانا چاہے
لیڈرِ قوم کو غمخوار نہ سمجھا جائے

بھانڈ لوگوں کو بھی کہہ سکتے ہیں حیوانِ ظریف
سب کو غالب کا طرفدار نہ سمجھا جائے

بیشتر شعر لکھے اپنی زمیں پر میں نے
پھر بھی چاہتا ہوں زمیندار نہ سمجھا جائے