ظفرانیات

میاں میں ایسے سخن ہائے حق کی تاب نہیں
وہ اپنی زوجہ سے کہہ دے کہ مجھ کو داب نہیں

چلو کہ نعرہء یاہو بلند کرتے ہیں
یوں روز روز کے کڑھنے میں کچھ ثواب نہیں

بجا کہ کھانا بنانے سے تم نہیں واقف
تمہارا اُلو بنانے میں تو جواب نہیں

کسی ولیمے میں شاہین کس لئے نہ بنے
ہمارے حصے میں کیوں بوٹیوں کی قاب نہیں

تہیں چڑھانا بہ رُوئے زنانہ میک اپ کی
تمہیں بتاؤ کہ کیا صورتِ نقاب نہیں

مرا خیال ہے چُوہا ہی مر گیا ہے کہیں
تمہارے کمرے میں میری کوئی جراب نہیں

بنامِ عشق و محبت جو جس سے چاہو کہو
کسی کُڑی سے بھی اندیشہ ء حجاب نہیں

ہر آئے دن نہ گرانی کی دہونیاں دیجے
یہ ہم وطن ہیں کوئی سیخ پر کباب نہیں

میں کھلکھلاتا ہوں جی بھر کے اپنی دُرگت پر
کہ میر بننا تو ہر عشق کا نصاب نہیں

View original post 18 more words